page contents Poetry With Pic: کہانی دومنٹ کی (افسانہ)

Tuesday 24 March 2015

کہانی دومنٹ کی (افسانہ)


کہانی دومنٹ کی

(افسانہ)
یکے بعد دیگرے کئی دھماکے ہوئے۔
میں سہم گیا۔
پھر تڑتڑاتی ہوئی گولیاں چلنے لگیں اور معصوم چیخیں بلند ہونے لگیں۔
میرے پیر کانپنے لگے۔
"یا خدا!یہ قیامتِ صغریٰ کیوں؟"
میری آواز میرے حلق سے نکلتے نکلتے اٹک گئی۔دل زوروں سے دھڑکنے لگا اور میری آنکھوں کے سامنے تاریکی پنکھ پسارے خاموشی کی وادی میں اُترنے لگی جہاں 2006 کھڑا اپنی خواہشوں کی پتھریلی زمین پر سبز طوطے کو آزادی دلانے کے لئے اپنے سر پر کفن باندھ رہا تھا۔

طوطا مُسکرا رہا تھا،جب جب اس تاریک دُنیا میں آزادی کے نعرے بلند ہورہے تھے۔اپنے آقاؤں کو محوئے حیرت سے دیکھ رہا تھا جو تاریک راہوں میں آزادی پانے کا گیت الاپ رہے تھے اور اپنی سُریلی آوازوں سے اُن نوجوانوں کو رجھا رہے تھے جن کا مستقبل تاریکیوں کا شکار ہوگیا تھا۔ہاں،وہ حکومت کے بھوکے مذہب کے سائے تلے اپنے مقصد کی حصولیابی میں جُٹ گئے تھے۔
اُن کے سامنے انسانیت کراہ رہی تھی اور مذہب کا جنازہ نکل رہا تھا۔حقیقتاً وہ انسان سے حیوان میں تبدیل ہوچکے تھے۔وہ اپنی زمین میں ہی لاشوں کی کھیتی کررہے تھے۔لاشوں کی فصل اُگا رہے تھے،مُسکرا رہے تھے اور لوگوں کو یقین دلا رہے تھے۔
"آزادی یوں ہی نہیں ملتی ہے ۔اس کے لئے ہمیں اور بھی قربانیوں کی ضرورت ہے۔اے میری ماؤں،اے میری بہنوں اپنے اپنے معصوم بچوں کے ہاتھوں میں کتابوں کی بجائے جدید ترین اسلحے تھمادو کہ وقت آج مشکل میں ہے ہم اگر اپنے ارادوں میں کامیاب ہوگئے تو یقنن مانو ہم پھر علم کا شمع روشن کرلیں گے۔"
اور پھر انگنت معصوم ہاتھوں میں کلاشنکوف رائفل تھما دئے گئے۔
موت کا بازار گرمانے لگا۔معصوموں کی چیخوں سے ممتا کا سینہ پھٹنے لگا۔
"یا خدا! ہم اپنے بچوں کے خون کو رائگاں نہیں جانے دیں گے۔اس کا انتقام لیا جائے گا۔"
جوشِ جنوں میں سبز پرچم کے رکھوالوں نے قسم کھائی۔طوطا چیخ پڑا۔
"میری آزادی،میری آزادی!"
اُسے حقارت کی نگاہ سے دیکھا گیا۔طوطا پھڑپھڑا کر خاموش ہوگیا۔
اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر طرف لہو لہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اِدھر اُدھر بکھری ہوئی لاشیں۔اُن لاشوں پر ماتم کرتی ہوئی عورتیں۔آنسو بہاتے ہوئے لوگ اور سوگ میں ڈوبی ہوئی انسانیت مگر اُس ماں کا غم کون سمجھے گا جو اپنی چھاتی پیٹ رہی ہے۔اپنے ہاتھوں اپنا چہرہ نوچ رہی ہے اور چلا رہی ہے۔
"اے خدا ! تو نے میرے بچۤے کو مجھ سے کیوں چھینا؟"
یہ سوال تو ہرطرف گونج رہا ہے۔
وہاں بھی جہاں اندھیرا ہے۔
وہاں بھی جہاں سے روشنی پھوٹ رہی ہے۔
"اُف خدا ! یہ کیا ہنگامہ ہے؟!"
میں نے اپنے آپ سے سوال کیا اور دو منٹ کے درمیان میں ٹھہری ہوئی زندگی واپس اپنی ڈگر پر آگئی اور میں روز مرہ کی طرح بچوں کو درس دینے میں جُٹ گیا۔
" ذات پات،نسل اور مذہب سے بڑی چیز انسانیت ہے۔انسان کو ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے میں ہی عافیت ہے اور امن ہے۔ہم اس زمین کے وہ پھول ہیں جس کی خوشبو سے پوری کائنات معطر ہے۔ہم اپنی انا،اپنی چاہت اور اپنی ہوس کے لئے کسی کو کیوں نشانہ بنائیں۔یہ ہماری بزدلی ہے اگر ہم ایسا کرتے ہیں۔ہم اپنے اپنے خداؤں کو اُسی وقت خوش کرسکتے ہیں جب ہم کسی مجبور،کسی بےبس،کسی بیمار اور کسی ضرورت مند کے کام آسکیں۔یہی انسانی معراج ہے۔"
بچۤے غور سے سُن رہے تھے یا شاید سوچ رہے تھے۔
"امن تو موت میں ہے۔زندگی تو ہنگامہ بپا کرنے کا نام ہے۔"
پتا نہیں کیوں میں نے یہی سمجھا اور تیزی سے اپنا موضوع بدل دیا۔

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments