page contents Poetry With Pic: Urdu Story
Showing posts with label Urdu Story. Show all posts
Showing posts with label Urdu Story. Show all posts

Tuesday 24 March 2015

New Urdu Story مجھے بچپن سے ہی انگریزی میں فیل ہونے کا شوق تھا

New Urdu Story مجھے بچپن سے ہی انگریزی میں فیل ہونے کا شوق تھا

مجھے بچپن سے ہی انگریزی
میں فیل ہونے کا شوق تھا لہذا میں نے ہر کلاس میں اپنے شوق کا خاص خیال رکھا۔ ویسے تو
مجھے انگریزی کوئی خاص مشکل زبان نہیں لگتی تھی ، بس ذرا سپیلنگ ، گرائمراور Tenses نہیں آتے تھے۔ مجھے یاد ہے جو ٹیچر ہمیں کلاس میں انگریزی پڑھایا کرتے تھے وہ بھی کاٹھے انگریز ہی تھے، دو سال تک ’’سی۔۔۔یو ۔۔۔پی۔۔۔’’سپ‘‘ پڑھاتے رہے، مشین کو ’’مچین‘‘اور نالج کو ’’کنالج‘‘ کہتے رہے۔ایسی تعلیم کے بعد میری انگریزی میں اور بھی نکھا ر آگیا، مجھے یاد ہے میٹرک کے داخلہ فارم میں جب ایک کالم میں ’’Sex ‘‘ لکھا ہوا تھا تو میں کافی دیر تک شرماتے ہوئے سوچتا رہا کہ ایک لائن میں اتنی لمبی تفصیل کیسے لکھوں؟؟؟فارم کے پہلے کالم میں اپنا نام انگریزی میں لکھنا تھا لیکن انگریزی سے نابلد ہونے کی وجہ سے مجھے یہ نام لکھنے کے لیے اسلام آباد کا سفر کرنا پڑا کیونکہ فارم پر لکھا ہوا تھا’’Fill in capital ‘‘۔انگریزی فلمیں دیکھتے ہوئے بھی مجھے کہانی توسمجھ آجاتی تھی، سٹوری پلے نہیں پڑتی تھی۔سکس ملین ڈالر مین ، نائٹ رائڈر، چپس، ائیر وولف اور کوجیک جیسی مشہورِ زمانہ فلمیں میں نے صرف اور صرف اپنی ذہانت سے سمجھیں اور انجوائے کیں۔
آج سے کچھ سال پہلے تک مجھے یقین ہوچکا تھا کہ میں فارسی، عربی ، پشتو اور اشاروں کی زبان تو سیکھ سکتا ہوں لیکن انگریزی نہیں،لیکن اب جو حالات چل رہے ہیں اُن کو مدنظر رکھ کر میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ یا تو مجھے انگریزی آگئی ہے، یا سب کو بھول گئی ہے۔کچھ بھی ہو، میری خوشی کی انتہا نہیں، اب سارے سپیلنگ بدل گئے ہیں اور دو تین لفظوں میں سما گئے ہیں۔ اب Coming لکھنا ہو تو صرف cmg سے کام چل جاتا ہے۔گرل فرینڈ GF ہوگئی ہے اور فیس بک FB بن گئی ہے۔ اب کوئی انگریزی کا لمبا لفظ لکھنا ہو تو اُس سے پہلے کے چند الفاظ لکھ کر ہی ساری بات کہی جاسکتی ہے، میں نے ساڑھے تین سال کی’’ٹیوشن بامشقت‘‘ کے بعد unfortunately کے سپیلنگ یاد کیے تھے، آج کل صرف Unfort سے کام چل جاتاہے یعنی جہاں سے مشکل سپیلنگ شروع وہیں پہ ختم۔بات یہاں تک رہتی تو ٹھیک تھا لیکن اب تو اس مختصر انگریزی میں بھی ایسی ایسی مشکلات آن پڑی ہیں کہ کئی دفعہ جملہ سمجھنے کے لیے استخارہ کرنا پڑتاہے۔ابھی کل مجھے ایک دوست کامیسج آیا، لکھا تھا’’U r inv in bk crmy‘‘ میں نے حیرت سے میسج کو پڑھا، اللہ جانتا ہے تین چار دفعہ مجھے شک گذرا کہ اُس نے مجھے کوئی گندی سی گالی لکھی ہے، دل مطمئن نہ ہوا تو ایسی ہی انگلش لکھنے اور سمجھنے کے ماہر ایک اور دوست سے رابطہ کیا، اُس مردِ مجاہد نے ایک سیکنڈ میں ٹرانسلیشن کردی کہ لکھا ہے You are invited in book’s ceremony۔۔۔!!!
انگریزی سے نمٹنے کا ایک اوراچھا طریقہ میرے ہمسائے شاکر صاحب نے نکالا ہے، جہاں جہاں انہیں انگریزی نہیں آتی وہاں وہ اطمینان سے اُردو ڈال لیتے ہیں۔مثلاً اگر کھانا کھاتے ہوئے اُنہیں کسی کا میسج آجائے تو جواب میں لکھ بھیجتے ہیں’’پلیز اِس ٹائم ناٹ ڈسٹرب، آئی ایم کھانا کھائینگ‘‘۔ ایک دفعہ موصوف کو فیس بک پر ایک لڑکی پسند آگئی، فوراً لکھا’’آئی وانٹ ٹو شادی وِد یو۔۔۔آر یو راضی؟‘‘۔ لڑکی کا جواب آیا’’ہاں آئی ایم راضی، بٹ پہلے ٹرائی ٹو راضی میرا پیو تے بے بے ‘‘۔آج کل یہ دونوں میاں بیوی ہیں اوراکثر اسی انگریزی میں لڑائی جھگڑا کرتے ہیں، تاہم اب وہ درمیان میں اُردو کی بجائے پنجابی بولتے ہیں اور ایک جملہ بار باردہراتے ہیں’’ آئی سیڈ کھصماں نوں کھا ، یور سارا خاندان اِز چول‘‘۔
انگریزی کے بدلتے ہوئے رنگ صرف یہیں تک محدود نہیں، اب تو کوئی صحیح انگلش میں جملہ لکھ جائے تو اُس کی ذہنی حالت پر شک ہونے لگتا ہے، ماڈرن ہونے کے لیے انگریزی کا بیڑا غرق کرنا بہت ضروری ہوگیاہے ،میں تو کہتا ہوں انگریزی کی صرف ٹانگ ہی نہیں، دانت بھی توڑ دینے چاہئیں ، اِس بدبخت نے ساری زندگی ہمیں خون کے آنسو رُلایا ہے۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب انگریزی لکھنے کے لیے گرائمراورTenses بھی غیر ضروری ہوگئے ہیں۔یعنی اگر کسی کو کہنا ہو کہ ’’میں تمہارا منتظر ہوں، تم کب تک آؤ گے؟‘‘ تو بڑی آسانی سے اِسے چٹکیوں میں یوں لکھا جاسکتا ہے m wtg u cm whn?۔۔۔!!!
دنیا مختصر سے مختصر ہوتی جارہی ہے، کمپیوٹر ڈیسک ٹاپ سے لیپ ٹاپ اور اب آئی پیڈ میں سما چکے ہیں، موٹے موٹے ٹی وی اب سمارٹ ایل سی ڈی کی شکل میں آگئے ہیں، ونڈو اے سی کی جگہ سپلٹ اے سی نے لے لی ہے،انٹرنیٹ ایک چھوٹی سی USB میں سمٹ چکا ہے
ایسے میں انگریزی کو سب کے لیے قابل قبول بنانے کی اشد ضرورت محسوس ہورہی تھی، اُردو کا حل تو ’’رومن اُردو‘‘ کی شکل میں بہت پہلے نکل آیا تھا، اب انگریزی کی مشکل بھی حل ہوگئی ہے۔اب جو جتنی غلط انگریزی لکھتاہے اُتنا ہی عالم فاضل خیال کیا جاتا ہے، اگر آپ کو کسی دوست کی طرف سے میسج آئے اور اُس میں That کی بجائے Dat لکھا ہو توبیہودہ سا قہقہہ لگانے کی بجائے ایک لمحے میں سمجھ جائیں کہ آپ کا دوست ایک ذہین اور دنیا دار شخص ہے جو جدید انگریزی کے تمام تر لوازمات سے واقف ہے۔میں سمجھتا تھا کہ شاید انگریزی میں اُردو اور پنجابی کا تڑکا ہمارے ہاں ہی لگایا جاتا ہے لیکن میر اخیال غلط ثابت ہوا، سعودیہ میں مقیم میرا بھانجا بتا رہا تھا کہ یہاں کے عربی بھی انگریزی کا شوق پورا کر رہے ہوں تو جہاں جہاں انگریزی آنکھیں دکھاتی ہے وہاں یہ عربی کا لفظ ڈال لیتے ہیں، مثلاًاگر انگریزی میں کہنا ہو کہ یہ میرا گھر ہے تو بڑے آرام سے کہہ جاتے ہیں ’’ھذا مائی ہوم‘‘۔
انگریزی اتنی آسان ہوگئی ہے لیکن بڑے دکھ کے ساتھ بتانا پڑ رہا ہے کہ یہ آسان انگریزی صرف ہماری عام زندگیوں میں ہی قابل قبول ہے، انگریزی کا مضمون پاس کرنے کے لیے تاحال اُسی جناتی انگریزی کی ضرورت ہے جوخود انگریزوں کو بھی نہیں آتی۔پتا نہیں آج کل کی رنگ بدلتی انگریزی میں اب پرانی انگریزی کی کیا ضرورت رہ گئی ہے؟ پہلے کبھی لگتا تھا کہ ساری دنیا میں انگریزی کی اشد ضرورت ہے، دنیا سے رابطے کے لیے انگریزی بولنا اور لکھنا بہت ضروری ہے ، لیکن اب تو لگتا ہے عالمی رابطے کے لیے کوئی نئی زبان ہی وجود میں آرہی ہے، یہ زبان کسی نے نہیں بنائی، نہ اِس کے کوئی قواعد ہیں ، بس یہ خوبخود بن گئی ہے اور لگ رہا ہے کہ کچھ عرصے تک باقاعدہ ایک شکل اختیار کرجائے گی، یہ زبان سب سمجھ سکتے ہیں،لکھ سکتے ہیں لیکن شاید بول کبھی نہیں سکیں گے کیونکہ یہ ’’شارٹ ہینڈ‘‘ کی وہ قسم ہے جو کسی کالج یا انسٹی ٹیوٹ میں نہیں پڑھائی جاتی۔اِس زبان میں خوبیاں تو بہت ہیں لیکن ایک کمی ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی، یہ جذبات سے عاری زبان ہے، یہ چند لفظوں میں دو ٹوک بات کرنے کی عادی ہے، اس زبان میں کسی کی موت پر v sad لکھ دینا ہی کافی سمجھا جاتاہے، یہ محبتوں اور احساسات سے محروم زبان ہے۔ میں یہ زبان کچھ کچھ سیکھ چکا ہوں، لیکن استعمال کرنے سے گھبراتا ہوں، پتا نہیں کیوں مجھے لگتاہے اگر میں نے بھی یہ زبان شروع کردی تومجھ میں اور روبوٹ میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔

Urdu Story بات ہے ''زبان '' کی


Urdu Story بات ہے ''زبان '' کی


یہ ایک حقیقت ہے کہ زبان کا بہت گہرا تعلق انسان کے ذہنی ارتقاء سے ہے لیکن یہ صرف خوراک کو چبانے،نگلنے میں مددگار و معاون نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ فقط کسی بھی شے کا ذائقہ چکھنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ زبان انسان کو انسان بناتی ہے اور زبان ہی کسی انسان میں انسانیت کے ہونے نہ ہونے کا پتہ دیتی ہے .
حقیقی مرد جب تک زندہ رہتا ہے اسکی ایک زبان ہوتی ہے اور حقیقی عورت وہ ہے جو صرف مر کر بے زبان ہوتی ہے ، زبان میں ہڈی کوئی نہیں ہوتی لیکن ہڈی پسلی توڑنے اور تڑوانے میں یہ اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی ،عقل مند کی عقل اسکی زبان کے آگے ہوتی ہے اور بیوقوف کی زبان اسکی عقل سے آگے رہتی ہے ،شریف لوگ عموما' بے زبان ہوتے ہیں لیکن ہر بے زبان آدمی شریف نہیں ہوتا ،ہاں اگر بے زبان آدمی شادی شدہ ہے تو اسکے شریف ہونے کا امکان زیادہ ہے ،
کچھ لوگ چکنی چپڑی باتیں کرنے والے چرب زبان ہوتے ہیں جو کہ زیادہ تر سیاستدان ہوتے ہیں ،یہ اپنی زبان سے لوگوں کی آنکھوں پر پٹی باندھنے کے ہنر میں طاق ہوتے ہیں سفید جھوٹ بولنے کے ماہر یہ لوگ سبز باغ دکھانے کا کام کرتے ہیں ،زبانی جمع خرچ ہی ان کا پیشہ ہے، عملی میدان میں یہ دور بین یا خورد بین دونوں کی مدد سے بھی دکھائی نہیں دیتے ،
زبان کی حلاوت کانوں میں رس گھول دیتی ہے اور زبان کی کڑواہٹ بدن کا خون چوس لیتی ہے ، میٹھی زبان سے غیروں کے دل میں گھر کیا جاسکتا ہے اور کڑوی زبان اپنوں کے دل سے نکال دیتی ہے ،زبان بہت بڑی نعمت ہے اور زبان ہی بڑی مصیبت بھی ، زبان درازی مصیبت کھینچ لاتی ہے ، زبان اوقات بناتی ہے اور زبان ہی اوقات دیکھاتی بھی ہے ،
کچی زبان کا مسلمان نہیں ہوتا اور اگر خدا نخاوستہ ہو بھی تو پٹھان بالکل نہیں ہوتا ،اردو دان زبان کی جان لیتے ہیں اور پٹھان زبان پر جان دیتے ہیں ،محبت کی زبان جنھیں آتی ہو وہ خاموشی کی زبان بھی سمجھ لیتے ہیں،اور پھر زبان حال سے بیان ہوتی باتیں سب وہ جان لیتے ہیں .
اگر کسی کا ضمیر زندہ ہو تو اسکی زبان بندی ممکن نہیں رہتی ،اور جسکا ضمیر مر جاۓ اسکے منہ میں غیروں کی زبان آجاتی ہے ،
دنیا میں جتنے منہ ہیں اتنی ہی زبانیں ہیں ،اور ہر زبان اپنا اپنا راگ الاپتی ہے ، طاقتور کی زبان بدمعاشی ہوتی ہے ،اور اس کا سد باب قانون کی زبان سے کیا جاتا ہے ،لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں قانون کی اور طوائف کی زبان میں کچھ زیادہ فرق نہیں رہا دونوں کی طبعیت پیسہ دیکھ کر پھسل جاتی ہے ،
ریشہ دوانیاں،نت نئی لن ترانیاں،غرض میں لتھڑی ثناخوانیاں،دشنام طرازیاں،الزام تراشیاں، یہ سب زبان ہی کے کرشمے ہیں ،
جو جیسی زبان استعمال کرتا ہے اسکے بارے میں ویسی ہی باتیں زُبان زَدِ عام ہوجاتی ہیں اور اسی لئے زبان خلق کو نقارہ خدا بھی سمجھا جاتا ہے
زبان سر کی محافظ بھی اور جان کی دشمن بھی ،جس قوم کے بڑے بدزبان ہوجائیں اور ان کے مشیر درباری زبان کے ماہر ہوں اس قوم میں زبان کو لیکر متعصب باتیں عام ہوجاتی ہیں اور پھر زبان سے ایک دوسرے کو وہ گھاؤ دیئے جاتے ہیں کہ بات صرف زبانی کلامی نہیں رہتی ، ہم اسی زبان کی وجہ سے دو لخت ہوچکے ،
اگر قوم یک زبان ہوکر ایسے بڑوں کے خلاف ہم آواز ہوجاۓ تو شاید محبت ہماری قومی زبان بن جاۓ، ورنہ لعنتیں بھیجتی اور نفرت کی آگ اگلتی زبان تو ہماری قومی زبان ہے ہی ..................!
تحریر: سکندر حیات بابا

suhagraat ki raat in urdu


اندر کا زہر
(افسانہ)
میں کوئی کہانی لکھنے ہی بیٹھا تھا۔قلم کی روشنائی اچانک ختم ہوگئی۔
"شاید آج بڑی کہانی جنم لیتے لیتے دم توڑ گئی۔"
میں نے سوچا اور لیٹے لیٹے اُٹھ بیٹھا۔کاغذ پر ابھری ناتمام تحریریں مجھے چڑا رہی تھیں۔میں اںہیں حسرت سے دیکھتے ہوئے ایک طرف کھسکا دیا کہ یہ اب سات جنم میں بھی تکمیل کے مرحلے سے نہیں گزر سکتی ہیں۔
مجھے تو لکھنا تھا۔چلو اب کمپیوٹر پر لکھ لیتے ہیں۔لیکن میرے اندر شور کرتا ہوا سمندر خاموش ہوچکا تھا۔اب میں کچھ بھی نہیں لکھ سکتا ہوں۔
یہ کیفیت عام آدمی کی کیفیت ہے۔اس وقفے میں کو ئی گیت گُنگُنایا جاسکتا ہے۔کوئی کتاب پڑھی جاسکتی ہے یا کمپیوٹر پر بیٹھ کر آوار گردی کی جاسکتی ہے۔مگر میں ایسا نہیں کرسکا۔
"مجھے چائے کی ضرورت ہے۔"
اچانک بول اُٹھا۔بیوی نے کہا۔
"کھانا کھا لیجئے ۔یہ جائے پینے کا کوئی وقت نہیں ہے۔"
میں کھانے کے لئے بیٹھ گیا۔
اب میری ادھوری کہانی چور دروازے سے میرے ذہن میں اُبھرنے لگی۔
"یار یہ بھی کوئی وقت ہے۔اب میں کچھ نہیں لکھونگا۔"ّ
اور میں کھانا کھانے کے بعد بستر پر دراز ہوگیا۔نہ جانے کب نیند لگی اور کب کہانی خواب بن کر میرے لاشور کے پردے پر نمودار ہوئی،مجھے کچھ بھی خبر نہیں۔البتہ جب آنکھیں کھلیں تو سرہانے بیوی کھڑے کہہ رہی تھی۔
"لو اب خواب میں بھی کہانی بکنے لگے ہیں۔"
ہاں وہ کہانی کیا تھی؟
میں نے بیوی سے پوچھا اور وہ کہنے لگی۔
ایک آدمی بلی بن کر گلی کوچے میں گھوم رہا تھا،گھر گھر جھانک رہا تھا کہ خدا کی مخلوق کس حال میں ہے اور وہ اسی کیفیت میں کتوں کا شکار ہوگیا۔ہاں وہ آدمی اپنے گھر لوٹ نہیں سکا۔جہاں اب تک اُس کے گھر والے انتظار کررہے ہیں۔"
"ارے بھائی یہ بھی کوئی کہانی ہے۔"
میں ہنستے ہوئے اُٹھا اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری اُنگلیاں کمپیوٹر کے کی بورڈ پر تھرکنے لگیں اور ایسی ہی کوئی کہانی وجود میں آگئی۔تب مجھے احساس ہوا کہ میں نے اپنے اندر کا زہر اُگل دیا ہے۔اب میں ہٖفتوں تک اطمنان سے رہ سکوں گا۔

کہانی دومنٹ کی (افسانہ)


کہانی دومنٹ کی

(افسانہ)
یکے بعد دیگرے کئی دھماکے ہوئے۔
میں سہم گیا۔
پھر تڑتڑاتی ہوئی گولیاں چلنے لگیں اور معصوم چیخیں بلند ہونے لگیں۔
میرے پیر کانپنے لگے۔
"یا خدا!یہ قیامتِ صغریٰ کیوں؟"
میری آواز میرے حلق سے نکلتے نکلتے اٹک گئی۔دل زوروں سے دھڑکنے لگا اور میری آنکھوں کے سامنے تاریکی پنکھ پسارے خاموشی کی وادی میں اُترنے لگی جہاں 2006 کھڑا اپنی خواہشوں کی پتھریلی زمین پر سبز طوطے کو آزادی دلانے کے لئے اپنے سر پر کفن باندھ رہا تھا۔
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments