page contents Poetry With Pic: Urdu Story بات ہے ''زبان '' کی

Tuesday, 24 March 2015

Urdu Story بات ہے ''زبان '' کی


Urdu Story بات ہے ''زبان '' کی


یہ ایک حقیقت ہے کہ زبان کا بہت گہرا تعلق انسان کے ذہنی ارتقاء سے ہے لیکن یہ صرف خوراک کو چبانے،نگلنے میں مددگار و معاون نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ فقط کسی بھی شے کا ذائقہ چکھنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ زبان انسان کو انسان بناتی ہے اور زبان ہی کسی انسان میں انسانیت کے ہونے نہ ہونے کا پتہ دیتی ہے .
حقیقی مرد جب تک زندہ رہتا ہے اسکی ایک زبان ہوتی ہے اور حقیقی عورت وہ ہے جو صرف مر کر بے زبان ہوتی ہے ، زبان میں ہڈی کوئی نہیں ہوتی لیکن ہڈی پسلی توڑنے اور تڑوانے میں یہ اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی ،عقل مند کی عقل اسکی زبان کے آگے ہوتی ہے اور بیوقوف کی زبان اسکی عقل سے آگے رہتی ہے ،شریف لوگ عموما' بے زبان ہوتے ہیں لیکن ہر بے زبان آدمی شریف نہیں ہوتا ،ہاں اگر بے زبان آدمی شادی شدہ ہے تو اسکے شریف ہونے کا امکان زیادہ ہے ،
کچھ لوگ چکنی چپڑی باتیں کرنے والے چرب زبان ہوتے ہیں جو کہ زیادہ تر سیاستدان ہوتے ہیں ،یہ اپنی زبان سے لوگوں کی آنکھوں پر پٹی باندھنے کے ہنر میں طاق ہوتے ہیں سفید جھوٹ بولنے کے ماہر یہ لوگ سبز باغ دکھانے کا کام کرتے ہیں ،زبانی جمع خرچ ہی ان کا پیشہ ہے، عملی میدان میں یہ دور بین یا خورد بین دونوں کی مدد سے بھی دکھائی نہیں دیتے ،
زبان کی حلاوت کانوں میں رس گھول دیتی ہے اور زبان کی کڑواہٹ بدن کا خون چوس لیتی ہے ، میٹھی زبان سے غیروں کے دل میں گھر کیا جاسکتا ہے اور کڑوی زبان اپنوں کے دل سے نکال دیتی ہے ،زبان بہت بڑی نعمت ہے اور زبان ہی بڑی مصیبت بھی ، زبان درازی مصیبت کھینچ لاتی ہے ، زبان اوقات بناتی ہے اور زبان ہی اوقات دیکھاتی بھی ہے ،
کچی زبان کا مسلمان نہیں ہوتا اور اگر خدا نخاوستہ ہو بھی تو پٹھان بالکل نہیں ہوتا ،اردو دان زبان کی جان لیتے ہیں اور پٹھان زبان پر جان دیتے ہیں ،محبت کی زبان جنھیں آتی ہو وہ خاموشی کی زبان بھی سمجھ لیتے ہیں،اور پھر زبان حال سے بیان ہوتی باتیں سب وہ جان لیتے ہیں .
اگر کسی کا ضمیر زندہ ہو تو اسکی زبان بندی ممکن نہیں رہتی ،اور جسکا ضمیر مر جاۓ اسکے منہ میں غیروں کی زبان آجاتی ہے ،
دنیا میں جتنے منہ ہیں اتنی ہی زبانیں ہیں ،اور ہر زبان اپنا اپنا راگ الاپتی ہے ، طاقتور کی زبان بدمعاشی ہوتی ہے ،اور اس کا سد باب قانون کی زبان سے کیا جاتا ہے ،لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں قانون کی اور طوائف کی زبان میں کچھ زیادہ فرق نہیں رہا دونوں کی طبعیت پیسہ دیکھ کر پھسل جاتی ہے ،
ریشہ دوانیاں،نت نئی لن ترانیاں،غرض میں لتھڑی ثناخوانیاں،دشنام طرازیاں،الزام تراشیاں، یہ سب زبان ہی کے کرشمے ہیں ،
جو جیسی زبان استعمال کرتا ہے اسکے بارے میں ویسی ہی باتیں زُبان زَدِ عام ہوجاتی ہیں اور اسی لئے زبان خلق کو نقارہ خدا بھی سمجھا جاتا ہے
زبان سر کی محافظ بھی اور جان کی دشمن بھی ،جس قوم کے بڑے بدزبان ہوجائیں اور ان کے مشیر درباری زبان کے ماہر ہوں اس قوم میں زبان کو لیکر متعصب باتیں عام ہوجاتی ہیں اور پھر زبان سے ایک دوسرے کو وہ گھاؤ دیئے جاتے ہیں کہ بات صرف زبانی کلامی نہیں رہتی ، ہم اسی زبان کی وجہ سے دو لخت ہوچکے ،
اگر قوم یک زبان ہوکر ایسے بڑوں کے خلاف ہم آواز ہوجاۓ تو شاید محبت ہماری قومی زبان بن جاۓ، ورنہ لعنتیں بھیجتی اور نفرت کی آگ اگلتی زبان تو ہماری قومی زبان ہے ہی ..................!
تحریر: سکندر حیات بابا

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments